۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
مذہبی شدت پسندی

حوزہ/چن کوئنگؤ نے کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہونے کے دوران ایک سکیورٹی کریک ڈاؤن کی نگرانی کی تهی جس میں اویغور اور دیگر مسلمانوں کو مذہبی شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے نام پر نشانہ بنایا گیا تها۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چن کوئنگؤ نے کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہونے کے دوران ایک سکیورٹی کریک ڈاؤن کی نگرانی کی تهی جس میں اویغور اور دیگر مسلمانوں کو مذہبی شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے نام پر نشانہ بنایا گیا تها۔
چین کی سرکاری شینہوا نیوز ایجنسی نے سنیچر کو کہا تها کہ چن کوئنگؤ اس پوسٹ پر ۲۰۱۶ سے تهے اور اب انہیں دیگر ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔ جبکہ ان کی جگہ گوئنگڈنگ صوبے کے ۲۰۱۷ سے گورنر رہنے والے ماشنگروی کو تعینات کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے محققین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے اندازہ لگایا ہے کہ ۱۰ لاکه سے زائد مسلمانوں کو مغربی چین میں سنکیانگ کے علاقے میں محصور کیا ہوا ہے۔
چین نے ان مظالم کے الزامات کی تردید کی ہے اور ان کیمپوں کو پیشہ ورانہ ٹریننگ کے مراکز قرار دیا ہے، جو چینی حکام کے مطابق دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی غرض سے بنائے گئے ہیں۔
چین کے حکام نے ۲۰۱۹ کے آواخر میں کہا تها کہ ان کیمپوں سے تمام افراد ’فارغ التحصیل‘ یا ’گریجویٹ‘ ہوگئے ہیں۔

‌‌‌‌‌‌چن کوئنگؤ، جن کی عمر ۶۶ برس ہے، چین کی کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی سازی کی کمیٹی کے رکن ہیں۔ انہیں وہ سینیئر افسر مانا جاتا ہے جو سنکیانگ میں سکیورٹی کریک ڈاؤن کے لیے ذمہ دار تها۔
گذشتہ سال امریکہ نے چن کوئنگؤ پر پابندی عائد کی تهی۔
واضح رہے کہ جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک قانون پر دستخط کیا تها جس کے تحت سنکیانگ سے درآمدات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
یہ پابندی ان خدشات کے تحت عائد کی گئی ہے جن کے مطابق سنکیانگ میں جبری مزدوری کروائی جاتی ہے۔
چین نے اس پابندی کی غصے سے مذمت کی ہے۔
کچه غیر ملکی وزرا، قانون ساز اسمبلیوں، بائیڈن اور ٹرمپ انتظامیہ کے وزرا نے اویغوروں کے ساته ہونے والے سلوک کو ان کی نسل کشی قرار دیا ہے۔
امریکہ میں اویغوروں کی جبری مزدوری کی روک تهام کا قانون چین میں ان کے ساته کیے جانے والے سلوک کو روکنے کی کوشش ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .